الأربعاء، 23 يناير 2013

میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟


 صفات عالم محمدزبیرتیمی  
اسلام کتنا عمدہ دین ہے کاش کہ اس کے افراد بھی ویسے ہوتے ۔

 ایک نومسلم خاندان کے پاکیزہ جذبات پر مشتمل یہ تحریر ہے جسےپڑھ کرجذبات میں ہلچل مچ جاے گى، آنکھیں اشک بار ہوجائیں گی اورسوچنے پرمجبور ہوں گے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ....؟

 میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیاتها کہمیں ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے، اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے محض اس وجہ سے دور تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھى اوراپنے نام سرکاری کاغذات بهى تيار كرالى تھى، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی۔
گذشتہ دنوں سفر ہندوستان کے دوران اپنے علاقہ کے مختلف قصبات اور شہروں میں دعوتی پروگرامز رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ، بہار کی راجدھانی پٹنہ میں السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر فاونڈیشن کے زیراہتمام یہاں کی متعدد مساجد میں خطاب کرنے کا موقع ملا ، ایک روز نماز فجر کے بعد درس قرآن سے فارغ ہوئے تو ایک چالیس سالہ باریش شخص سے ملاقات ہوئی،درس سورہ عصر کی تشریح پر مشتمل تھا جس میں دعوت پر زور دیا گیا تھا اس سے وہ کافی مثاثر تھے ،کہنے لگے کیا وجہ ہے کہ باطل آج اپنی فکر کو پھیلانے میں نہایت چست دکھائی دے رہا ہے لیکن دین حق کے ماننے والے بالکل سست ہوچکے ہیں ۔ ہم نے ان کی بات پر حامی بھرى اوران کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ اسلام کوآپ جیسے لوگوں کی ہی ضرورت ہے جو سونے والوں کو بیدار کریں ،کہنے لگے : مولانا: میرے بارے میں اللہ رب العالمین سے خاص دعا کریں کہ گھر میں ایمان آجائے ؟میں نے کہا : کیا مطلب ! گھر کے افراد دین سے دور ہیں ؟ کہنے لگے : ابھی دین میں تو آئے ہی نہیں ہیں ، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے چند سالوں قبل اسلام قبول کیا ،اس اثناء اہل خانہ اور بچوں کے سامنے اسلام پیش کر نے کی پورى کوشش کی لیکن کچھ اسباب تھے جس کے باعث وہ اسلام کے قریب نہ آسکے ،لیکن ابھی وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں اور ایک مولانا نے اگلے ہفتہ ہمارے گھر آکر اہلیہ کو کلمہ تلقین کرانے کا وعدہ کیا ہے ۔میں نے انہیں مبارکباد دی ،اور پوچھا کہ کیا آپ کی اہلیہ اسلام سے بالکل مطمئن ہیں ،کہنے لگے : ہاں ! وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں ،میں نے کہا: تو پھر ایک ہفتہ کی مہلت کیوں؟ اگر مناسب سمجھیں تو آج ہی ان کو کلمہ پڑھادیاجائے ۔ چنانچہ اتفاق ہواکہ رات میں بعدنماز عشاء ان کے گھر جاکر اہلیہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کردی جائے۔ حسب وعدہ نماز عشاء کے بعد مل گئے ،اس طرح ہم محترم محمدافتخارصدیقی اور مولانا حبيب الرحمن عالياوى کی معیت میں ان کے گھر گئے ،اہلیہ عیسائی مذہب پر تھیں،ہم نے سب سے پہلے ان کی باتیں سنیں جن سے اندازہ ہوا کہ وہ اسلام کو پسند کرتی ہیں اورشوہر کے قبول اسلام کے بعد اسلام کا مطالعہ بھی کیا لیکن ایک مسلمان کے غلط رویہ سے اسلام سے متنفر تھیں،انہوں نے کہا کہ :
"میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیا تهاکہمیںان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے ،اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے دور محض اس وجہ سے تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھی اور اپنے نام سرکاری کاغذات بنا لیے تھے، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی ، لیکن اللہ کی شان کہ گذشتہ رمضان میں اس کے دل میں غلطی کا احساس ہوا بالآخر میرے والد کے پاس آکر معافی مانگا اور گذارش کی کہ چلیں ہم وہ زمین آپ کے نام کردیتے ہیں،اس طرح وہ زمین میرے والد کی تحویل میں آگئی،اب مسلمانوں کے تئیں میرے والد کے ذهن میں جو بدظنی تھی جها ں اس میں کمی آئی وهيں میں بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگی،اور شوہر کے ساتھ کچھ روزے بھی رکھے،لیکن اب تك اسلام کی توفیق نہ مل سکی تھی....“
میں ان کی باتیں بغور سن رہا تھا ،جذبات میں ہلچل مچ رہى تھى، اور اس بات پر رونا آرہا تھا کہ آج ہمارے بعض مسلم بھائی کس طرح اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ میں نے متعدد مثالوں کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کی آفاقیت اورمسلمانوں کے طرزعمل کے بیچ فرق کو سمجھیں، اس کے بعد اسلام کا تعارف کراتے ہوئے عیسائی عقیدے کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ پیش کیا، پھر ان کے چند سوالات تھے جن کے تشفی بخش جوابات دیئے گئے تو وہ قبول اسلام کے لیے مطمئن ہوگئیں،بالآخر اسی وقت ان کو کلمہ شہادت پڑھا دیاگیا ۔
قبول اسلام کے بعد ہم نے انہیں مبارکباد دی ، اور کچھ احکام بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اب آپ کو پنجوقتہ  نماز یں پڑھنی ہے ،کہنے لگیں کہ ہاں بالکل اس کے لیے تیار ہوں ،البتہ فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونا مشکل ہے ، ہم نے پوچھا کہ آپ کتنے بجے بیدار ہوتی ہیں ، کہنے لگیں: چھ بجے ،ہم نے کہا : اسی وقت فجر کی نماز ادا کرلیں، (کیونکہ نومسلموں کے سامنے احکام پیش کرنے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا بیحد ضروری ہے)۔
اس مجلس میں ہم نے اب تک نومسلمہ کی زبانی اپنے شوہر کی بہت ساری خوبیاں سنیں،اس سے پہلے ہم نے خود اسماعیل بھائی کے دینی جذبات سن رکھے تھے ،اس لیے مناسب سمجھا کہ ان سے بھی گفتگو کرلی جائے،چنانچہ ہم نے موصوف کے قبول اسلام کا قصہ سنا اوراس سے متعلقہ باتیں کیں ، ذیل کے سطورمیں ہم ان سے ہوئی طویل گفتگو کا خلاصہ پیش کررہے ہیں :
سوال :سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں ؟
جواب :میرا پیدائشی نام جولین فرانسس داس ہے ، البتہ قبول اسلام کے بعد میں نے ’اسماعیل‘ نام اختیار کیا ہے  ، جنوب ہند بنگلور کے ایک رومن کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا، اسی مذہب پر رہا ، یہاں تک کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسرروزگار ہوا تو بنگلور چرچ آف کرائسٹ جو بنگلور میں عیسائیوں کی نہایت سرگرم تنظیم ہے ، انہوں نے مجھے دعوت دی ،میں ان کے پاس جانے لگا ، پادری اپنی نگرانی میں میری تربیت کرنے لگا یہاں تک کہ ایک روز میں ان کے ہم مذہب ہوگیا اور ان کی دعوت کو فروغ دینے میں پورى تندہى سے لگ گيا۔
سوال :آپ کس پیشے سے منسلک ہیں ؟
جواب: میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں،فی الحال ایک انٹرنیشنل کمپنی میں سلائی کی نگرانی پر مامور ہوں۔ کمپنی کی طرف سے مختلف ممالک اور شہروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ،ان دنوں پٹنہ میں رہنا ہو رہا ہے ۔
 سوال : آپ کے قبول اسلام کا سفر کیسے شروع ہوا ؟
جواب :یہ کوئی 1992ء کی با ت ہے ، جس دکان میں کام کرتا تھا وہ ایک مسلمان کی دکان تھی ، اس نے ایک روز مجھے احمد دیدات صاحب کی کتاب لاکر دی، جس میں عیسائیت اوراسلام کا موازنہ کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی گئی تھی ،میں نے جب کتاب پڑھى تو یہ پہلا موقع تھا جب اسلام سے متاثر ہوا اوراپنے مذہب کی بابت شک میں پڑگیا، کتاب کى پشت پر مطبوعات کی فہرست دیکھی جس میں ساوتھ افریقہ کے دعوتی مرکز کا پتہ دیا گیا تھا ، میں نے ان کو خط لکھاکہ مجھے فلاں فلاں کتابیں چاہئیں ،اللہ پاک ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ فوراً انہوں نے مجھے مطلوبہ کتابیں ارسال کردیں ، میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کردیا،اب میں چرچ جاتا تو پاسٹر سے مختلف طرح کے سوالات کرتا،شاید وہ مجھے بھانپ گیا تھا کہ میں اس کے عقیدے پر کاری ضرب لگا رہا ہوں،وہ مجھے تجسس کی نگاہ سے دیکھنے لگا،بالآخر چرچ سے مجھے برخواست کردیا گیا۔
1995ء میں میری کمپنی نے مجھے دہلی منتقل کیا ،ایک روز جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے وہاں سے نماز کی ایک کتاب خریدی اور نماز کی دعائیں وغیرہ سیکھنا شروع کردیا،اب تک میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ،لیکن نماز میں مجھے عجیب طرح کا سکون ملتا تھا اس لیے نماز شروع کردی ، ماہ رمضان آیا تو روزے بھی ركھے ۔
اسی اثناء کمپنی نے مجھے انڈونیشیا منتقل کردیا، میں احمد دیدات صاحب کا عقیدت مند بن گیا تھا،انٹرنیٹ پر ان کا پروگرام پابندی سے دیکھتا۔اسی طرح قرآن کی تلاوت بہت شوق سے سنتا تھا ، ایک دن قاری صداقت علی کی آواز میں قرآن کی تلاوت مع ترجمہ سن رہا تھا ، تلاوت سورہ رحمن کی تھی ،سورہ کا پیغام میرے دل کو چھو گیا،مجھے سورہ بہت پسند آئی ،اوراسے میں نے یاد کرنا شروع کردیا،روزانہ دو آیتیں یاد کرتا بالآخر چند ہفتوں میں پوری سورہ یاد کرلی ۔
سوال :قرآن سے آپ کی دلچسپی کی وجہ ؟
جواب:قرآن سے میری دلچسپی کی واقعی اہم وجہ ہے ، مجھے غصہ بہت آتا تھا ،یہاں تک کہ میں اپنی بیوی پر بھی بہت غصہ كرتا تھا،لیکن ایک روز قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچا کہ جنت کے حقدار وہ لوگ بنیں گے جو چند صفات سے متصف ہیں ان میں سے ایک صفت جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اورلوگوں کے ساتھ عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں، (سورہ آل عمران ۴۳۱) یہ آیت میرے لیے نیک فال ثابت ہوئی، میں اسکے بعد خود کو تربیت دینے لگا کہ غصہ نہیں کروں گا،یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ پر کنٹرول کرلیا،(بیوی جو شریکِ گفتگو تھی تائید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے اندر یہ بہت بڑی تبدیلی دیکھی کہ بالکل نرم مزاج بن گئے ، اب ان کو کچھ بھی بول دو غصہ نہیں آتا )۔
 سوال :ہاں! تو ابھی آپ اپنے قبول اسلام سے پہلے کا قصہ سنا رہے تھے کہ آپ نے سورہ رحمن کو اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی یادکرلیاتھا ۔ پھرقبول اسلام کی سعادت کیسے نصیب ہوئی ؟
جواب: جی ہاں! ایک روز کی بات ہے ،میرے ایک انڈونیشین دوست نے مجھ سے کہا کہ تم کو میں اسلام سے بہت قریب دیکھتا ہوں، تم اسلام قبول کیوں نہیں کر لیتے ، میں نے اس سے سارا ماجرا سنا دیا اورکہا کہ واقعی مجھے اسلام پسند ہے لیکن ایک بہت بڑی رکاوٹ میرے سامنے یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو اسلام سے بہت دور دیکھتا ہوں ، میری پیدائش کلکتہ میں ہوئی ،جس علاقہ میں رہتا تھا وہاں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی ،ان کا سارا عمل اسلام کے خلاف تھا ،میں قرآن میں کچھ پڑھتا ہوں اور مسلمان کچھ اور نظر آتے ہیں، آخر میں ویسا مسلمان کیوں بنوں ؟۔
انڈونیشا کا میرا دوست دیندار تھا ،وہ مجھ سے بہت قریب ہوگیا،اپنے گھر لے جاتا اور اسلام کی بہت ساری معلومات فراہم کرتا، اس نے مجھے ایک روز سمجھایاکہ تم مسلمانوں کے مذہب کو قبول نہیں نا کر رہے ہو ،اللہ کے دین کو اپنا رہے ہو....پھر سارے مسلمان ویسے نہیں ہوتے ، تمہیں چاہیے کہ اگر اسلام سمجھ میں آگیا ہے تو کلمہ شہادت کی گواہی دے کر مسلمان بن جاؤ ،بالآخر اس کی ترغیب پر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ اللہ اسے جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔
سوال: قبول اسلام کو کتنے سال ہوگئے ؟
جواب : مکمل چار سال ہوگئے ۔
سوال :اسلام میں آپ کو سب سے زیادہ کونسی چیز پسند ہے ؟
جواب: اسلام میں سب سے زیادہ مجھے قرآن پسند ہے ، میں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ ایک مرتبہ ختم کیا ہے ،اور دوسری چیز جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے وہ اسلام کا طریقہ عبادت یعنی نماز ہے ،ہر مسلمان کے لیے پنجوقتہ نمازوں کی پابندی ضروری ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ بھی منطقی اور معقول ہے۔ جب کہ عیسائی مذہب میں ہفتہ میں ایک دن چرچ جانا ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے لیے ۔
 سوال: آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی طرف دعو ت دینے میں کیا رول ادا کیا ؟
جواب : شروع سے میری پوری کوشش رہی کہ گھر والے اسلام قبول کرلیں ،تاہم حکمت کے پیش نظر میں نے شروع میں اہلیہ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا ، جب بعد میں ان کو اطلاع مل گئی تو انہیں دعوت دینا شروع کردیا، چونکہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں تحفظات تھے جس کی وجہ سے لیت ولعل سے کام لیتی رہی، تاہم میں مایوس نہیں تھا، تہجد کی نماز میں اللہ پاک سے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتا تھا ۔ الحمدللہ آج ان کو ہدایت مل گئی ۔
سوال :کیا آپ تہجد کا اہتمام بھی کرتے ہیں ؟
جواب : اللہ کا شکر ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے مجھے نمازتہجد کی توفیق مل رہی ہے ۔اذان سے پہلے بیدار ہونا میرا معمول بن چکا ہے ۔ الحمدللہ
سوال : آپ کے کتنے بچے ہیں ؟
جواب : ایک بیٹا اورایک بیٹی ہے ،بیٹا گیارہ سال کا اور بیٹی نو سال کی ہے ۔ دونوں بنگلور میں پڑھتے ہیں ۔
سوال : آپ دعوت کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں ؟
جواب: میں ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں، روزانہ بذریعہ ای میل مجھے صحیح بخاری سے منتخب احادیث موصول ہوتی ہیں تلاوت قرآن کے معاً بعد انہیں پڑھتا ہوں، اس طرح اب تک میں نے چارسو احادیث یاد کرلی ہیں، اس کے بعد مستقل آدھا گھنٹہ عیسائی دوستوں کو تعارف اسلام پر مشتمل مواد ارسال کرنے اوران کے سوالات کے جوابات دینے میں لگاتا ہوں۔
سوال : آپ ایک عرصہ سے مسلمان ہیں جبکہ آپ کی اہلیہ نے آج اسلام قبول کیا ہے ،اوردونوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں،اس مدت میں آپ کی اہلیہ کبھی آپ کی ادا اورآپ کے معمول سے ناراض نہیں ہوئیں ؟
جواب : جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شروع میں اہلیہ کو اپنے اسلام کی اطلاع نہیں دی تھی ،جب ان کو میرے اسلام کا پتہ چلا تو کوئی خاص ناراضگی ظاہر نہیں ہوئی کہ میرے اندر غيرمعمولى نرمى آچکى تھى ،اوران کے ساتھ معاملہ میں پہلے سے بہتر بن گیا تھا ۔
سوال : (اسماعیل بھائی کی اہلیہ جو شریک گفتگو تھیں ان سے سوال ) آپ بتائیں کہ جب آپ کو اسماعیل بھائی کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو آپ کو کیسا لگا؟
جواب :مجھے رنج اس بات سے نہیں ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے بلکہ رنج اس بات پر ہوا کہ انہوں نے مجھے بتائے بغیر یہ فیصلہ کرلیا۔ اس پرطرہ یہ کہ جب کبھی ان کے ہمراہ کہیں جانا ہوتا ،ہمارے بیچ سے نکل جاتے اورکچھ دیر کے بعد لوٹتے،جب تک ہم ان کے لیے پریشان ہو جاتے تھے ، پوچھنے پر تشفى بخش جواب نہیں مل پاتا، یہ طریقہ مجھے بہت خراب لگا، بعدمیں پتہ چلا کہ ان کا ہمارے بیچ سے نکلنا نمازکے لیے ہوتا تھا۔
اسی طرح اسلام قبول کرنے کے بعد سونے سے قبل قرآن سننے کی ان کی عاد ت سی بن گئی تھی ، کمپیوٹر میں ڈاون لوڈ تلاوت کھول دیتے اور سنتے رہتے ، یہاںتک کہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ، اس سے میں پریشان ہوجاتی تھی بلکہ بسا اوقات نیند نہ آنے کی وجہ سے باہر نکل جاتی  تھی ،اب تک ان کا یہی معمول ہے ،البتہ اب اس سے مانوس ہوچکی ہوں،اور مجھے بھی قرآن سننا اچھا لگنے لگا ہے ۔
 سوال :مسلمان بھائیوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ صحیح اسلام کو اپنائیں ،اپنا عقیدہ ٹھیک کریں ،اس کے بعد پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں ،مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ مسجد قریب ہونے کے باوجود لوگ نمازکے لیے حاضرنہیں ہوتے ،اور اپنے گھروں میں بیٹھے ٹیلیویژن کے اسکرین پر فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
 ہمیں چاہیے کہ مثالی مسلمان بنیں جیسے صحابہ کرام کی درخشاں اور مثالی زندگی کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے ۔ جس طرح انہوں نے اسلام کی راہ میں قربانیاں پیش کی تھیں اسی طرح ہمیں بھی اسلام کے فروغ کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ عیسائیوں کو دیکھیں کہ دعوت کے میدان میں کس قدر چست ہیں ،ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد بائیبل ہاتھ میں دبائے عوامی مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور جب موقع ملا،بائبل پڑھ کر عیسائیت کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔دعوت کے کام میں پلاننگ ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔

محترم قارئین!آپ نے اسماعیل بھائی اوران کی اہلیہ کے قبول اسلام کا قصہ پڑھا اوران کے جذبات سے واقف ہوئے ،اس میں ہم سب کے لیے درس ہے ،عبرت ہے، نصیحت ہے کہ ہم خودکو اسلام کا نمونہ بنائیں اورغیرمسلموں کے لیے نمونہ بنیں،کیاپتہ کہ شاید ہم کسی شخص کے قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہوں۔


الجمعة، 18 يناير 2013

زنا کی روک کے لیے اسلامی قانون واحد حل


میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ دلی کی چلتی بس میں گینگ ریپ ہندوستان کے مہذب معاشرہ پر طمانچہ سے کم نہیں ،السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر فاؤنڈیشن ،پٹنہ کے صدر مولانامطیع الرحمن چترویدی نے کہا کہ اگر ہم اسلامی لباس کا اہتمام کریں ، زنا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر جو اسلام نے بتائے ہیں ان کو اپنائیں ،کہ مردوعورت دونوں اپنی اپنی نظریں نیچی رکھیں،اجنبی عورتوں سے خلوت اختیار نہ کریں،اور اگر مردوں سے بات کرنے کا موقع ہو تو معروف طریقے سے بات کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس طرح کے حادثات ہمارے معاشرے میں پیدا ہوں ۔ اسلام نے اس سے پہلے دل کوبدلنے کی کوشش کی ہے جس میں ایک اللہ پر یقین اوراس کے سامنے جوابدہی کااحساس یہ ایسا عقیدہ ہے جو انسان کو برائی سے خودبخود روکتا ہے ۔مولانا چترویدی نے کہا کہ اسلام زناکارمردوعورت کے لیے اگر وہ شادی شدہ ہوں تو سنگسار اوراگر غیرشادی شدہ ہوں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی تجویز کرتا ہے ،اگر اسلام کے اس قانون پر عمل کیاجائے تو اس قسم کے شرمناک واقعات پر قابو پا سکتے ہیں ۔

الأحد، 13 يناير 2013

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے


ثناءاللہ صادق تیمی 

جواہر لال نہرو یونیورسٹی

برادرگرامی قدرمولانا ثناءاللہ صادق تیمی کی شستہ تحریراورفاونڈیشن کے تئیں ان کے پاکیزہ خیالات ذیل کے سطورمیں پیش کیے جارہے ہیں جنہیں فیس بک سے اخذ کیا گیا ہے ۔ہم ان کے نیک جذبات کی قدر کرتے ہیں اورآئندہ بھی ان کے قیمی مشورے کےچشم براہ رہیں گے ۔(ادارہ (

پچھلے دنوں علماء صادقپور کی سرزمین پٹنہ میں دوچار دن گزارنے کی توفیق ارزانی ہوئی۔ در اصل السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف قسم کے رفاہی اور دعوتی پروگرامز منعقد کیے گئے ۔ سعودی عرب سے بڑے بھائی جناب ڈاکٹر مولانا معراج عالم تیمی کا حکم ہوا کہ اگر بہار میں ان دنوں رہنا تو پروگرام میں شرکت کرنا اور نظامت کا فریضہ انجام دینا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ شوشہ در اصل میرے دوست اور ساتھی مولانا آصف تنویر تیمی کاچھوڑا ہوا تھا ورنہ 
                               کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل    نسیم صبح تیری مہربانی

23 دسمبر سے یہ سفر شروع ہو کر 26 دسمبر تک چلا ۔ اس بیچ الحمد للہ کئی ایک کامیاب اور نہایت مفید پروگرام آرگنائز کیے گئے اور اہالیان پٹنہ نے بھر پور استفادہ کیا ۔ مختلف مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کے علاوہ اس پروگرام کی ایک خاصیت نے بطور خاص مجھے متاثر کیا کہ بڑا پروگرام بھی کافی زیادہ لمبا نہیں تھا۔ عصر سے شروع ہوکر عشاء تک ختم ہو گیا ۔ یعنی دعوتی کا م بھی ہو گیا اور معاملات زندگی متاثر بھی نہیں ہوے ۔ ایک دوسری بڑی اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ غریبوں کا نہ صرف خیال رکھا گیا کہ ان کہ درمیان کمبل تقسیم کیے گئے بلکہ دانشمندانہ قدم یہ اٹھایا گیا کہ جھگی جھوپڑی کے اندر ایک دینی مکتب بھی کھولا گیا کہ ان کی تعلیم کا بند و بست بھی ہو اور غریبی کے دیو سے مستقل پیچھا بھی چھوٹے۔ اس پروگرام کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے اندر ایک عرب شیخ حمد بن محمد المھیزعی بھی شریک تھے ۔ آدمی متواضع اور دعوتی جذبے سے شرشار ۔ کئی ایک مواقع سے ان کے خطابات کو اردو زبان میں پیش کرنے کا خاکسار کو موقع نصیب ہوا۔ ہم پٹنہ سے مظفرپور موٹر کار سے شیخ کے ہمراہ جارہے تھے اور ہمارا ڈرائیور ہندو تھا ۔ مجھے جہاں یہ لکھتے ہوے انتہائی درجے میں خوشی ہو رہی ہے کہ شیخ نے اس آدمی کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور الحمد للہ اس شخص کا ریسپانس کافی پازیٹیو (جواب مثبت ) رہا وہیں اس بات کا انتہائی درجے میں افسوس ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں اور بطور خاص علماء نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ ورنہ صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ آج بھی یہ میدان وسیع ہے ۔ دنیا حق جاننے کو آمادہ ہے لیکن افسوس کہ جن کے پاس حق کی نعمت ہے وہ خود اس سے نابلد ہیں ۔ اللہ خیر کرے ۔ خاص طور سے برادران وطن کے اندر جو مختلف معبودوں کا تصور ہے اور انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے اس کی قلعی کھول کر اور اسلام کا صاف و شفاف چہرہ پیش کرکے ان کو تو اسلام سے قریب کیا ہی جا سکتا ہے ۔ 

اس تین چار دن کے اندر جس بات کا احساس سب سے زیادہ ہوا وہ یہ تھا کہ مسلم عوام کے اندر حق جاننے کا جذبہ کافی زیادہ ہے خاص طور سے جوانوں کے اندر یہ جوش و جذبہ فراواں بھی ہے اور توانا بھی ۔ ان میں سے بعض کے اندر تو داعیانہ اسپرٹ اور احساس ذمہ داری کی بھی جھلک نظر آئی ۔

ان کے سوالات کرنے کے رنگ ڈھنگ سے ان کے شوق و رغبت کا اندازہ لگانا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ بلا شبہ یہ جوان مضبوط سرمایہ ہیں ، البتہ ان کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ اب ہمارے علماء کا رابطہ عوام سے کمزور پڑتا جارہا ہے اور مجھے ذاتی طور پر یہ ڈر ستا تا ہے کہ کہیں یہ جوش و جذبہ سے بھر پور جوان گمراہ کن عناصر کے شکار نہ ہو جائیں ۔ سلیم الفکر علماء کی غفلت کو نظروں میں رکھا جاے اور دوسرے لوگوں کے تگ و تاز کو بھی دیکھا جاے تو اسے اندیشہ ہاے دور دراز بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ تجربات بتلاتے ہیں کہ اپنی کاوش و لگن اور بغیر علماء کی تربیت کے بالعموم لوگ تشدد کی راہ اپنا لیتے ہیں اور تکفیری نقطہ نظر کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ انہیں ہر جگہ سب کچھ غلط ہی نظر آتا ہے اور اس طرح وہ کسی کو مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔

اس پورے معاملے پر السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سکریٹری اور بڑے بھائی مولانا صفات عالم زبیر عالم تیمی سے گفت و شنید ہوئی ۔ ان کے تجربات بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔ واضح رہے کہ مولانا صفات عالم تیمی کویت میں دعوتی کاز سے جڑے ہوے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں مقبول عام اردو ماہنامہ' المصباح ' پورے تزک و احتشام کے ساتھ شائع ہوتا ہے اور عوام و خواص میں یکساں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔
آج کل بالعموم میگزین نکالنے کو دعوتی کام سمجھا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ مدارس کو دعوت کا اصل مرکز سمجھتے ہیں اور کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن کے سہارے ہی یہ کام کیا جا سکتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں میں جزوی سچائی ہے جسے ہم نے غلطی سے کلی سمجھ لیا ہے ۔ مدارس علماء پیدا کرتے ہیں جو دعوتی فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یہ ایک بالواسطہ طریقہ ہے اور ظاہر ہے کہ مدارس کے سارے فارغین دعوتی میدان میں تو رہتے بھی نہیں ۔ رسائل جرائد دعوتی کاز میں ممد و معاون ہوتے ہیں اور ہم اپنے مضامین کے ذریعے بلاشبہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن نہ بھولیں کہ ہمارا ٹارگیٹ کم ہوجا تا ہے اور ساتھ ہی یہ نقطہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام داعی کی سیرت اور اس کی عملی زندگی سے کافی جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ مضامین دیرپا ہو سکتے ہیں لیکن وہ سب تک نہیں پہنچ سکتے اور داعی کا عملی رویہ یہاں پر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے اور اس سے انکار نہیں لیکن لوگوں کی دینی تربیت ساتھ ساتھ انجام دینا اس سے کسی درجہ کم اہم نہیں ۔ ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے گاؤں گاؤں اور بستی بستی گھوم گھوم کر اس فریضے کو انجام دیا ہے اور الحمد للہ کہ ان کی کوششیں کافی بارآور ہوئی ہیں ۔ ہمیں مولانا ثناءاللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی کوششوں اور ان کی جانفشانیوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔

آج یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تبلیغی جماعت سب سے فعال اور دعوتی سطح پر کامیاب جماعت ہے ، اس لیے نہیں کہ ان کے یہاں سب کچھ ٹھیک درست ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے جیالے لوگوں کے بیچ جاکر کام کرتے ہیں ۔ ان کا اور عوام کا بلاواسطہ رشتہ استوار ہوتا ہے اور پھر جو نتائج رونما ہوتے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ نہ معلوم کیوں بڑی بڑی تنظیموں کے ذمہ داران بھی اخبار نکالنے اور میگزین شائع کر لینے کو دعوت کا مکمل کام سمجھ بیٹھے ہیں ۔ جس کمیونیٹی کی آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہو ان کے دانشوران کی یہ سوچ کس قدر مضحکہ خیز ہے ۔ یہ سب ہو اور ساتھ ہی لوگوں کے بیچ جاکر دعوتی اور تبلیغی مساعی بھی تو کیا کہنے ۔ اقبال نے کتنا درست کہا ہے ۔

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو 

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے


الاثنين، 7 يناير 2013

الشيخ حمد المهيزعي في زيارة تفقدية للمؤسسة -

الشيخ حمد المهيزعي الداعية بوزارة الأوقاف والشئون الإسلامية بالمملكة العربية السعودية مع الأمين العام للمؤسسة الدكتور معراج عالم المدني والأخ ثناء الله صادق التيمي في زيارة تفقدية للمؤسسة  - 
الدكتور معراج عالم المدني يشرح أمام الشيخ حمد المهيزعي عن أنشطة المؤسسة ومشاريعها والتعليمية والخيرية.  

مآسي وآلام : والمؤسسة ترعى الأسر الفقيرة

مسلمون بالاسم لايعرفون من الإسلام إلا اسمه وحتى كلمة التوحيد لا يحفظونها وهم يسكنون في حي البؤساء والفقراء(JHOPARPATTI) الواقع تحت جسر غاندي بمدينة بتناعاصمة ولاية بيهار الهندية!!
هذه مساكنهم وفضيلة الداعية الشيخ حمد محمد المهيزعي -وفقه الله زار المؤسسة في 1434/2/9هـ ومكث خمسة أيام في مدينة بتنا واطلع على مناشط المؤسسة وجهودها الدعوية والتعليمية والخيرية، والمؤسسة تسعي جادة لرعاية هذه الأسر الفقيرة دينيا وماديا واجتماعيا كما قامت  بفتح المدرسة لتدريس أطفالهم مبادئ الإسلام .



السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ایک روزہ اجلاس عام (مؤتمر دعوى وتوعوى تحت رعاية المؤسسة)



السلام ایجوکیشنل اینڈویلفیر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام بمقام رادرمنڈی مسجد،پٹنہ سیٹی ،ایک روزہ دینی جلسہ منعقد ہواجس میں پٹنہ اوراس کے مضافات سے ایک کثیر تعداد میں مردوخواتین نے شرکت کی اور ملک وبیرون ملک سے آئے ہوئے علمائے کرام کی بصیرت افروز خطابات سے استفادہ کیا ۔ اجلاس کی شروعات مولانافہیم حسرت فیضی امام رادرمنڈی مسجد کی تلاوت اورجناب مولانا محمدطاہر رحیمی اصلاحی کی نعت پاک سے ہوئی ۔ معاً بعد فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ معراج عالم تیمی مدنی نے فاونڈیشن کا تعارف کرایا اس کے اہداف ومقاصد بیان کئے اور مستقبل کی پلاننگ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا پختہ عزم ہے کہ بہار کی ریاست پٹنہ میں خاندان صادق پور اور مولاناعظیم آبادی کی قربانیاںپھرسے رنگ لائیں ،اسلام کا بول بالا ہو،مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آئے اورہماری رفاہی خدمات بہار کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ میں عام ہوں ۔
جناب مولانا آصف تنویر تیمی طالب اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ نے دعوت کی اہمیت وافادیت پر بصیرت افروز خطاب فرمایا،آپ نے اپنے خطاب میں نوجوانوں کو دعوت کے لیے للکارا اور اسلام کے تئیں ان کی ذمہ داریوںکو یاد دلایا ۔ اس موقع سے فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا قاری بدیع الزماں مدنی نے ”سوداوررجہیز معاشرے کے دوبڑے ناسور“ جیسے چبھتے ہوئے موضوع پر کتاب وسنت کی روشنی میں چشم کشا تقریر کی ،آپ نے سود کی لعنت کوبیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سود کی بیماری گھر گھر عام ہوتی جارہی ہے ،حالانکہ سود کا لین دین اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف ہے ،سودکا ایک درہم چھتیس مرتبہ زنا سے بھی بدتر ہے ،اورسود کے تہتر درجات ہیں ان میں ادنی درجہ یہ ہے کہ گویا آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے ۔آپ نے معاشرے میں پھیلے ہوئے جہیز جیسے ناسور پر بھی دل کشا خطاب فرمایا،آپ نے فرمایاکہ آج جہیز کا ناگ پورے مسلم معاشرے کو بری طرح سے ڈس رہا ہے ،جہیز کی وجہ سے کتنی مسلم بیٹیاں بن بیاہی پڑی ہوئی ہیں ،ہندوتہذیب سے مسلم معاشرے میں آئی ہوئی اس لعنت کو اپنانے کے نتیجے میں ہم نے نہ صرف شادی جیسی رحمت تقریب کو زحمت بنارکھی ہے بلکہ لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرکے دوہرے گناہ کے مستحق بن بیٹھے ہیں ۔اخیرمیں آپ نے سود اور جہیز کی تباہ کاریوں کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو دعوت دی کہ معاشرے کو تباہی کے دہانے تک لے جانے والے ایسے ناسور کا قلع قمع کے لیے تیار ہوجائیں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے ۔
پروگرام کے اندر کویت سے تشریف فرمامولانا صفات عالم تیمی مدنی نے دعوت کی راہ میں بلند ہمتی کی اہمیت وضرورت پر کا فی سنجیدگی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں باتیں کیں ،آپ نے فرمایا کہ آج باطل طاقتیں پورے زوروشورسے اپنے کھوٹے سکے دین کے بازار میں بیچ رہی ہیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں،اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ دین کی خالص تعلیم لوگوںمیں عام کی جائے ۔ موصوف نے فرمایاکہ ہم مسلمان بہترین قوم اس لیے ہیں کہ ہمیں انسانوں کی رہبری کے لیے نکالا گیا ہے ،رہبری کا یہ کام امت کے تمام افراد پر اپنی حیثیت کے مطابق عائد ہوتا ہے ۔اس کے بعد مولانا عبدالعظیم رضوی جنہوںنے ایک لمبا عرصہ قبرپرستی کے ماحول میں گذارا بلکہ اس کے گدی نشیں بنے رہے ،اللہ کی توفیق سے توحید سنت کی پاکیزہ تعلیمات سے متاثرہوئے اور راہ حق کو اپنالیا،آپ کو ”ہے فقط توحید وسنت امن وراحت کا طریق “ کے موضوع پر لب کشائی کا موقع دیاگیا ،چنانچہ آپ نے اپنے تجربات کی روشنی میں آنکھیں کھولنے والی تقریرکی ،آپ نے کلمہ لا الہ الا اللہ اورمحمدرسول اللہ کی عمدہ اسلوب میں تشریح کرتے ہوئے توحید کا پیغام پیش کیا،اوراس کی ضد شرک کا خلاصہ کیا ،پھر اطاعت رسول پر گفتگو کی اور اس کی ضد بدعت کا پوسٹ مارٹم کیا ۔
اخیر میں فضیلة الیشخ حمدبن محمدالمہیزعی جو بحیثیت مہمان خصوصی سعودی عرب سے تشریف لائے تھے ،ان کو خطاب کے لیے دعوت دی گئی ،آپ نے اطاعت رسول کے تقاضے پر عربی زبان میںپرمغز گفتگو کی جس کی ترجمانی کا شرف مولانا قاری بدیع الزماں مدنی کو حاصل ہوا ،جبکہ نظامت کا فریضہ جے این یو کہ ہونہار طالب علم مولانا ثناءاللہ صادق تیمی نے انجام دیا ۔

الدروس الأسبوعية في مختلف مساجد مدينة بتنه وضواحيها





الدكتور معراج عالم المدني الأمين العام للمؤسسة يوزع البطانيات في الفقراء


مدرسة زيد بن ثابت لأطفال المسلمين لايعرفون من الإسلام إلا إسمه


فإن آلاف أسر فقيرة مسلمة في مدينة بتنا عاصمة ولاية بيهار لايعرفون من الإسلام إلا إسمه يسكنون في بيوتهم المبنية بالخوص والحشيش فاقترحت المؤسسة لإيجاد حل عاجل لهم بفتح مدرسة زيد بن ثابت لتعليم أولادهم مبادئ الإسلام وتنظيم إقامة الدروس للكبار من الرجال والنساء منهم كما تسعى جادة إلى مساعدتهم ماديا وحل مشاكلهم المعيشية والبيئية .







السلام فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام جھونپڑپٹی میں مدرسہ کا قیام




بہار کی راجدھانی پٹنہ کے معروف ترین علاقہ سبزی باغ میں واقع السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر فاؤنڈیشن جہاں دعوتی وتعلیمی سرگرمیوںمیں مصروف ہے وہیں غرباءومساکین کی حالت زار پر بھی اس کی پوری نگاہ ہے ،چنانچہ اس کے متحرک اراکین کے مشوروں سے یہ بات طے پائی ہے کہ حسب ضرورت رفاہی سرگرمیاں بھی بروئے کارلائی جائیں ،اس سلسلہ میں ایک تاریخی اقدام کرتے ہوئے اس کے بعض اراکین گیا گھاٹ پل کے نیچے واقع ان جھگی جھونپڑیوںمیں پہونچے ،شہر کی چمک دمک پر قہقہے لگاتی گیا گھاٹ پل کے نیچے جھونپڑیوں اوراس میں بسنے والے لاچار ونادار مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ،یہاں چارسو سے زائد خاندان کسمپرسی کی زندگی گذرا رہے ہیں ،واضح رہے کہ یہ لوگ نام کے اعتبارسے تو مسلمان ہیں لیکن اسلامی عمل کا ذرہ برابر بھی ان میں شائبہ نہیں ہے ،ایک مہینہ قبل کے سروے سے معلوم یہ ہوا کہ یہ لوگ کلمہ توحید بھی نہیں جانتے ،اورنہ ان کا مسجد وغیرہ سے کوئی واسطہ ہے ،اسی وقت فانڈیشن کی طرف سے ایک جھونپڑپٹی مدرسہ بنادیاگیااور اس میں دعوت اور تعلیم کے لیے مولانا سرفراز عالم ندوی کو مکلف کیا گیا ،وہ دعوت وتعلیم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ مفلس اورقلاش بچوںکو مدرسے کی چٹائی پر بیٹھا دیکھ کران کی حالت زارپرجہاں آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں وہیں یک گونہ سکون حاصل ہوتا ہے کہ قوم کے بچے دین سیکھ رہے ہیں،اگر ان تک صحیح تعلیم پہنچ گئی تو اپنی پوری قوم کو اوپر اٹھالیں گے ۔ بروقت وہاںبچوںکی تدریس کا بندوست کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوںکی اصلاح کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے ،اسی جھونپڑپٹی میں خطبہ جمعہ کا بھی اہتمام ہورہا ہے اور مردوخواتین کوایمان وعمل کی باتیں بھی بتائی جارہی ہیں تاکہ انہیں دین کی معلومات ہواور اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں۔






قطعوا الخيوط من أياديهم وسلموها إلى الداعية بعدما فهموا العقيدة


هذه الصورة ترسم الجهود التي تبذلها المؤسسة في إصلاح عقيدة المسلمين حيث ثمت دعوة بعض الشباب من المسلمين إلى عقيدة صحيحة خلال زيارة الدعاة الدعوية ففلما فهموا العقيدة الصحيحة قطعوا الخيوط التي ربطوها في أياديهم وسلموها إلى الداعية بعدما عهدوا على أنفسهم إتباع ما جاء في الكتاب والسنة  فالحمد لله على نعمة الإسلام. 

صور ومشاهد لتوزيع البطانيات على الفقراء من مدينة بتنه


الأمين العام للمؤسسة يوزع البطانيات على الفقراء والمساكين


السلام فاؤنڈیشن کے زیراہتمام بیواوں اوریتیموں کے درمیان کمبل کی تقسیم



 السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر فاؤنڈیشن جہاں دعوتی وتعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہے وہیں غرباءومساکین کی حالت زار پر بھی اس کی پوری نگاہ ہے ،چنانچہ اس کے متحرک اراکین کے مشوروں سے یہ بات طے پائی ہے کہ حسب ضرورت رفاہی سرگرمیاں بھی بروئے کارلائی جائیں ،اس سلسلہ میں ایک تاریخی اقدام کرتے ہوئے اس کے بعض اراکین گیا گھاٹ پل کے نیچے واقع ان جھگی جھونپڑیوں میں پہونچے ،شہر کی چمک دمک پر قہقہے لگاتی گیا گھاٹ پل کے نیچے جھونپڑیوںاوراس میں بسنے والے لاچار ونادار مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ،یہاں چارسو سے زائد خاندان کسمپرسی کی زندگی گذرا رہے ہیں ،بروقت سردی کی شدت کا خیال رکھتے ہوئے ان کی بے چارگی کو مدنظر رکھ کر دوقسطوں میں ایک سو اکتیس کمبل ان کے درمیان تقسیم کرائے گئے ،قابل ذکر امر یہ ہے کہ جن اراکین وہمدردان فاؤنڈیشن نے اپنی قربانیاں پیش کی ہیں ان میں سرفہرت نائب صدر فاؤنڈیشن ن مولانا قاری بدیع الزماں سلفی ،سکریٹری مولانامعراج عالم تیمی ، معاون سکریٹری مولانا صفات عالم تیمی ،مولانا علی رضا سلفی اور متحرک رکن جناب افتخار صدیقی ہیں۔اللہ پاک اس نیک کام میں شریک تمام حضرات کومزید حوصلہ بخشے ، اصحاب خیر کی نیکیاں قبول فرمائے اور غرباء ومساکین کو صبرکی توفیق نصیب فرمائے ۔


الأحد، 6 يناير 2013

السلام ايجوكشنل اينڈ ويلفئر فاونڈيشن


بسم الله الرحمن الرحيم

دين حق كى دعوت اور ِكتاب وسنت كى تعليم اسلام كى بقاء كے دو بنيادى عناصر ہيں۔خاص طور سے غير اسلامى  ملكوں ميں  اگر الله كے فضل وكرم كے بعد علماء و مبلغين كى مخلصانہ كوششيں نہ ہوتيں  تو شايد اسلام كا چرا غ گل ہوچكا ہوتا۔(والله غالب على امره )

صوبۂ بہار كى راجدهانى پٹنہ جس كا قديم نام "عظيم آباد"  ہے۔ ماضى ميں علم وفن كا مركز رہا ہے۔يہاں نامور اساطينِ علم وفن  اور نابغۂ روزگار ارباب ِ دعوت وعزيمت   پيدا ہوئے۔جنہوں نے خدمت ِدين كا عظيم فريضہ سر انجام ديا۔خاندانِ صادقپور كى قربانياں  ، محدث شمس الحق  عظيم آبادى   صاحبِ عون المعبود اورسيد سليمان ندوى  جيسے يكتائے روزگارعلماء كرام كے اعمالِ جليلہ  اس كى زندہ مثاليں ہيں۔ ليكن افسوس كہ آج يہ تاريخى شہر علامہ اقبال كے  اس شعر كا  مصداق بن چكا  ہے۔

نشان راہ  دكهاتے تهے جوستاروں كو               
ترس گئے ہيں وہى كسى مردِراہ كےلئے

آج تحريكِ شہيدين كے جيالوں كى قربانيان فراموش  ہوتى جارہى ہيں ۔ان كى اصلاحى تحريكيں دم توڑ رہى ہيں ۔وہيں دوسرى طرف غير اسلامى قوتيں   اور باطل تحريكيں نت نئے روپ  ميں سرگرم ِ عمل ہيں۔ عيسائى مشنرياں اپنےسيكڑوں  ہاسپيٹل  ، اسكول  اور دوسرے اسكيموں كے ذريعہ نونہالانِ امت   كو دين اسلام  سے برگشتہ  كررہى ہيں۔ سخت گيرہندو تنظيميں اسلام اور مسلمانوں كے وجود كو مٹانے كے درپے ہيں۔ قاديانيت جديد تعليم يافتہ طبقہ  خصوصاً وكلاء اور ججو ں كواپنے دام ِفريب ميں پهنسا ر ہى ہے۔  شيعيت اپنے دلفريب نعروں  كى آڑ ميں پورى قوت كے ساتھ زہر افشانياں كر رہى  ہے۔قبر پرست فرقے   مسلمانوں كو قبر پرستى  ، مزار پرستى  اور عبادتِ غير الله  كى اسى لعنت ميں دوبارہ مبتلا كرنے  كى جان توڑ كوشسش كر رہے ہيں  جس كو ختم كرنے كے لئے رسول الله ﷺ اور آپ   كے  جانثار صحابہ  كرام نے جان ومال قربان كيا  تها ۔  ادهر چند سالوں سے"تكفيرى فرقہ" نوجوانوں   كے ذہن ودماغ ميں تباہ كن اور زہريلے افكار  ڈال كر امت مسلمہ كو تباہى كے بهينٹ چڑهارہا ہے ۔ ايسےپر آشوب حالات ميں پٹنہ كے بعض غيور باشندوں كى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے  مختلف علاقوں كے بعض علماء اور مبلغين  نے  الله كى توفيق سے ايك مشتركہ ٹرسٹ قائم كيا ہے۔ جس كا نام ہے " السلام ايجوكشنل اينڈ ويلفئر فاونڈيشن " ۔ 
                         
 يہ ايك خالص  دينى،دعوتى، تعليمى اور رفاہى ادارہ ہے۔ جس كا مقصدمسلمانوں كى دينى و دنيوى  فلاح وبہبود كے  لئےكام كرنا اور انسانيت كى خدمت كرنا ہے۔